منگل 18 مارچ 2025 - 07:00
قرآن مجید کی معاشرتی تعلیمات اور ہم!

حوزہ/کیا قرآن پرانی کتاب ہے؟ جی ہاں قرآن چودہ سو سال پرانی کتاب ہے، لیکن اس کی تازگی ختم ہونے والی نہیں، اسے پڑھنا چاہیے تو بندہ پڑھتا ہی چلاجائے، اسے سمجھنا چاہیے تو بندہ سوچتا ہی چلاجائے گا؛ انسانوں کے خالق نے انسانی زندگی کے تکامل اور ارتقاء کے سارے رموز اس میں بیان کیا ہے، جب تک یہ دنیا اور اس میں انسان باقی ہے، قرآن کی تعلیمات کی ضرورت رہے گی۔

تحریر : مولانا محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی| کیا قرآن پرانی کتاب ہے؟ جی ہاں قرآن چودہ سو سال پرانی کتاب ہے، لیکن اس کی تازگی ختم ہونے والی نہیں، اسے پڑھنا چاہیے تو بندہ پڑھتا ہی چلاجائے، اسے سمجھنا چاہیے تو بندہ سوچتا ہی چلاجائے گا؛ انسانوں کے خالق نے انسانی زندگی کے تکامل اور ارتقاء کے سارے رموز اس میں بیان کیا ہے، جب تک یہ دنیا اور اس میں انسان باقی ہے، قرآن کی تعلیمات کی ضرورت رہے گی۔

ان تعلمیات پر عمل کرکے ایک بہترین انسانی معاشرہ دنیا میں بنا سکتا ہے۔لہذا یہ تعلیمات کبھی پرانی اور فرسودہ نہیں ہوسکتیں ۔چند تعلمیات کا ہم یہاں ذکر کر دیتے ہیں۔

1. عدل و انصاف

عدل و انصاف تقریبا ہم معنی ہے۔انصاف مادہ نصف سے ہے۔اس کا معنی کسی بھی چیز کو دوبرابر حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔عدل کا معنی کسی بھی چیز کو اس کی اصلی مقام پر رکھنا ہے۔

دونوں لفظوں کا متضاد ظلم ہے۔

جہاں ظلم نہیں ہوگا تو وہاں عدل و انصاف ہوگا۔جہاں عدل و انصاف نہ ہو وہاں حتما ظلم ہی ہوگا۔یہ ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ان میں نسبت، نسبت تناقص ہے۔

قرآن مجید میں پروردگار عالم نے عدل و انصاف پر کافی زور دیا ہے۔دنیا میں انسانوں سے جو چیز چاہا ہے وہ عدل و انصاف ہے۔آخرت میں خدا نے جو کام انجام دینا ہے وہ بھی عدل و انصاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکتب اہلبیت میں عدل اصول دین میں شامل ہے۔

پروردگار عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ

”وَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا۔

ترجمہ:اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے، یقینا اللہ تو ہر بات کو خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔(سورہ نسا ٕ آیت نمبر 58)

یہاں پروردگار عالم مسلم یا مومن کی قید کے بغیر تمام انسانوں کے ساتھ عدل وانصاف کرنے کا حکم دےرہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عدل و انصاف تمام انسانوں اور معاشرے کی اہم و بنیادی ضرورت ہے۔ ہم اگر اپنی نظریات سے لے کر افکار تک اور افکار سے لے کر گفتار تک عدل و انصاف سے کام لیں تو ایک بہترین معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔جہاں کسی پر ظلم نہیں ہوگا جب ظلم نہیں ہوگا تو یقینا وہ معاشرہ خوش بخت و خوشحال معاشرہ ہوگا۔آج کل تمام انسانوں کی تگ و دو اور اہم ترین ضرورت فردی و اجتماعی خوشحالی ہے۔ یہ گوہر نایاب عدل و انصاف کے سیپی میں بند ہیں ۔ ایسے میں ہمیں عدل و انصاف کے سیپی کو تلاش کرنا اور وجود میں لانا ہوگا تاکہ اس کے ذریعے خوشحالی کے پھول کھل سکے۔امن و سکون کی خوشبو سے ہمارا معاشرہ معطر ہوسکے۔

عدل و انصاف لقلقہ لسانی اور نعرہ بازی سے ممکن نہیں بلکہ س کے لٸے بصیرت اور ایمان کی روشنی سے ”دیا“بناکر اسے جرأت و ہمت کی تیل سے ”لو“ روشن کر کے ہمیں اپنے کردار و عمل کے اطاق پر ہمیشہ جلا کر رکھنا ہوگا۔اس طرح ہم ہمیشہ شعوری کیفیت میں اپنے مخالفین و دشمنوں کے ساتھ بھی عدل و انصاف کرسکیں گے ۔ قرآن کا حکم بھی یہی ہے کہ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔(سورہ ماٸدہ آیت 8)

اس آیت میں پروردگار عالم دشمنی کی حالت میں بھی عدل و انصاف کا حکم دےرہا ہے ۔لہذا ہمیں اپنی انفرادی اجتماعی تنظیمی علاقاٸی لسانی خانوادگی دوستی یاری سمیت تمام معاملات و تعلقات میں عدل و انصاف سے کام لینا چاہٸے۔ تب جاکر ایک آٸیڈیل اور بہترین معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ اگر تمام مسلمان بلخصوص علما و طلبا بھی اس آیت پر عمل کریں تو معاشرے سے نصف سے ذیادہ اختلافات و دشمنی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔یوں کسی بھی معاشرے کو ہم معتدل و پرسکون معاشرہ بنایا جاسکتا ہے۔

2. حق گوئی

سچ بولنے کو حق گوٸی اور بولنے والے کو سچا یا حق گو کہا جاتا ہے۔عربی میں ”صدق“ کسی بھی خبر کا خارج کے مطابق ہونے کو کہا جاتا ہے۔ کوٸی خبر اصل واقعے کے مطابق نہ ہوتو اسے ”جھوٹ یا کذب“ جبکہ اس خبر دینے والے کو جھوٹا کاذب کہا جاتا ہے۔

سچاٸی وہ صفت ہے جو جس ذات میں ہو اسے عظیم بناتا ہے۔اس کا ضد جھوٹ اگر کسی میں ہو تو اس کی شخصیت خود بخود بےتوقیر و کم اہمیت ہوجاتی ہے اگرچہ ظاہرا وہ معاشرے کا کوٸی بڑاانسان یا عالم دین ہی کیوں نہ ہو۔لہذا انسان کا تعلق زندگی کے جس شعبے سے بھی ہو ہمیشہ سچ بولنا چاہٸے۔

قرآن مجید میں سچ بولنے یا حق بیانی کرنے کی کافی تاکید موجود ہے۔

3. سچوں کے ساتھ

سچاٸی کی اہمیت بہت ذیادہ ہے۔قرآن مجید میں کہیں بھی نمازیوں ،جہادیوں، روزہ داروں کے ساتھ ہونے اور ساتھ دینے کا حکم نہیں بلکہ متقین کے ساتھ ہونے کا بھی حکم نہیں مگر سچوں کے ساتھ ہونے اور ساتھ دینے ک حکم موجود ہے۔جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ۔

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ۔(سورہ توبہ 119)

یہاں اہل ایمان سے متقی و پرہیز گار ہونے کو ناکافی سمجھا جارہا ہے ان دونوں عظیم صفتوں اور مقاموں کے ساتھ سچوں کے ساتھ ہونے کا حکم دیا جارہا ہے۔

اس آیت سے سچاٸی اور سچ بولنے والوں کی اہمیت کاندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

آج اگر معاشرے میں اہل ایمان اہل دین اہل نماز واقعا سچ اور سچاٸی کے ساتھ دیں تو معاشرے سے جھوٹ اور جھوٹوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

سچاٸی کفر کی مانند کوٸی کلیہ نہیں ہے ۔سچاٸی کو ہم جز جز کر کے دیکھ سکتے ہیں ۔پرکھ سکتے ہیں۔اگر ہم اپنی زندگی اور اپنے معاشرے میں چھوٹے چھوٹے اور جزٸی معاملات میں سچ بولیں اور سچوں کا ساتھ تب ایک سچا اور عادلانہ معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔

4.سچاٸی کا داٸرہ

ہمیں معاشرے میں سچاٸی کا داٸرہ تنگ کر کے فرد واحد کے کردار اور چھوٹے چھوٹے واقعات پر سچ اور جھوٹ کو تطبیق کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر اسے خاندان ،دوستوں، ملکوں اور بین القوامی سطح پر بھی پھیلاکر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پھر جہاں جھوٹ نظر آٸے جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنے کی ضرورت ہے۔ چاہٸے یہ بات ہماری ذات،ہمارے ماں باپ، رشتہ دار، تنظیمی و فکری دوست احباب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو چونکہ یہی حکم قرآن ہے۔

جیساکہ ارشاد ہوتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ اِنۡ یَّکُنۡ غَنِیًّا اَوۡ فَقِیۡرًا فَاللّٰہُ اَوۡلٰی بِہِمَا ۟ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا۔

ترجمہ: اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔(سورہ نسا ٕ 35 )

یہاں پروردگار عالم ہرصورت سچ بولنے، گواہی دینے کا حکم دےرہا ہے یہاں تک کہ سچاٸی یا حق گوٸی خود اپنی ذات اور والدین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو سچ بولنے کا حکم ہے۔

مقام افسوس یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر دوسروں کے لٸےیعنی عزیزوں، رشتہ داروں، دوستوں، تنظیمی بندوں اور لسانی و فکری شخصیات کے لٸے بھی مسلسل جھوٹ بولاجاتا ہے۔تہمت بھی لگایا جاتا ہے۔حق اور سچ کو چھپایا جاتا ہے۔جبکہ قرآن کا مطالبہ یہ ہے کہ ہمیشہ سچ بولیں یہاں تک کہ اپنے خلاف بھی سچ بولنا پڑے تو بولنا واجب اور ضروری ہے۔

احادیث میں بھی سچ کی توصیف اور جھوٹ کی توبیخ ہوٸی ہے۔

بلکہ سچ اور جھوٹ کو انسان کے پہچاننے کا معیار قرار دیا ہے۔جیساکہ امام جعفر صادق علیہ سلام فرماتے ہیں کہ

”کسی انسان کے اچھے یابرے ہونے کی پہچان اس کےرکوع اور سجود کو طول دینے سے نہیں ہوتی،اور نہ ہی تم اس کے رکوع و سجود کے طولانی ہونے کو دیکھو،کیونکہ ممکن ہےایساکرنا اس کی عادت بن چکاہو کہ جس کےچھوڑنے سے اسے وحشت ہوتی ہے،بلکہ تم اس کے سچ بولنے اور امانتوں کے ادا کرنے کو دیکھو۔ (سفینة البحارج ٢ ص ١٨/آداب معاشرت صفحہ ٣٨)

اس حدیث مبارکہ سے سچ کی اہمیت کااندازہ کیا جاسکتا ہے۔

پس ہمیں چاہٸے کہ ہم اپنی زندگی کے جزٸیات سے لے کر خاندان تک ، علاقے سے لے کر ملکی و بین الاقوامی سطح تک سچ بولیں اور سچ بولنے والوں کاہی ساتھ دیں۔جھوٹ بولنے اور جھوٹوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوۓ انہیں بھی حق و سچ بولنے کی تلقین کریں۔اس طرح ایک بااعتماد معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ایک بااعتماد معاشرہ ہی بہتر نظم و ضبط اور راحت و سکون مہیا کرسکتا ہے۔

نتیجہ

ہمارے خالق و مالک نے ہماری دنیا میں آنے سے پہلے زندگی کے تمام ضروریات کو نعمات کی شکل میں پہلے سے آمادہ کیا۔ سورج، چاند، ہوا، زمین، پانی، درخت ، پھل، سبزیاں وغیرہ ۔اسی طرح اس انسان کو بہتر زندگی گزارنے اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل دینے کے لٸے انتہاٸی اہم ہدایات قرآن مجید میں بیان کیا ہے۔اسی لٸے قرآن مجید کو زندگی ساز و معاشرہ ساز کتاب بھی کہاجاتا ہے۔ زمانہ جتنا بھی ترقی کرے قرآنی تعلیمات انسانی معاشرے کی بنیادی ضروریات کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا۔ معاشرہ اگر دینی معاشرہ نہ بھی ہو تو نظم و ضبط اور بہتر زندگی کے لٸے بعض قرآنی تعلیمات انتہاٸی ناگزیر ہیں۔ ان اہم تعلیمات میں آزادی،حق گوٸی، عدل و انصاف، مساوات، ناپ تول میں ایمانداری، محبت و دوستی، ہمدردی و مدد، والدین کی اطاعت، بزرگوں کا احترام، خدمت خلق، صلہ رحمی، عزت نفس، محنت و مشقت جیسی سینکڑوں تعلیمات شامل ہیں۔ میں نے اس مختصر مقالے میں فقط پانچ اصولوں کا ذکر کیا ہے۔ انتعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ایک بہترین، پرامن اور پرسکون معاشرہ تشکیل دے سکتا یے۔خدا ہمیں ہرقسم کی ذاتیات، مفادات اور وابستگیوں سے ماورا ٕ ہوکر ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرماۓ! آمین

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha